رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جوادی آملی نے اپنے ہفتگی درس اخلاق میں بیان کیا : بہشت کے حصول کے لئے دو راستے ہیں کہ «مانعة الخلو» ہے نہ «مانعة الجمع» ؛ ایک راستہ درس و مباحثہ ہے کہ حوزات علمیہ اور یونیورسیٹی علم حصولی و استدلال کے ذریعہ اس کام کے ذمہ دار ہیں اور ایک راستہ تہذیب نفس ، نماز شب ، مسجد ، امام بارگاہ ہے اور گریہ کا راستہ «سِلَاحُهُ الْبُكَاء» ؛ اگر کہا گیا کہ جہاد نفس کرو ، یہ جہاد نفس اشک کے ذریعہ ہے ۔ خداوند عالم ہماری باتوں سے اثر مرتب کرتا ہے ، وہ ﴿سَمیعُ الدُّعاءِ﴾ ہے ، ہم لوگوں سے فرمایا تم لوگ طلب و گریہ کرو میں سنے والا ہوں ۔
انہوں نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہم السلام کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا : حضرت امیر (ع) فرماتے ہیں : ایسا کام کرو کہ بہشت کو دیکھو ، بہشت جانا بہت ہی اہم نہیں ہے ، بہشت کو دیکھنا اہم ہے ! تمہاری کوشش صرف یہ نہ ہو کہ اہل بہشت ہو ، کوشش کرو کہ بہشت کو دیکھے ؛ «فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ كَمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُنَعَّمُونَ وَ هُمْ وَ النَّارُ كَمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُعَذَّبُون» یہ راستہ ہمارے لئے بھی کھلا ہے ۔ یہ راستہ درس و مباحثہ ، حوزات علمیہ اور یونیورسیٹی کے ذریعہ بھی حاصل ہو سکتی ہے لیکن یہ بحث علم حصولی ہے حالانکہ شہود ایک علم حضوری ہے کہ جس کے لئے تہذیب نفس کی ضرورت ہے ۔ امام بارگاہ اور مسجدین اور ایام شہادت آئمہ اطہار علیہم السلام میں اس طرح کے معارف کی اشاعت ہوتی ہے ۔/۹۸۹/ف۹۷۶/